جمعرات، 26 ستمبر، 2013

خاندانی منصوبہ بندی کی حقیقت

خاندانی منصوبہ بندی کی حقیقت 

تھامس مالتھس (۱۷۶۶ء تا ۱۸۳۴ء) نے ۱۷۹۸ء میں Essay on Population اور پھر اس کے نظر ثانی شدہ دوسرے ایڈیشن ۱۹۰۳ء میں Essay on the Principle of Population میں آبادی اور زمینی وسائل کے عدم تناسب کا جو نظریہ پیش کیا تھا وہ علمی اور تحقیقی بحث سے قطع نظر بیسویں صدی کے امریکی اور یورپی پالیسی سازوں کے لیے اپنے استعماری اور نسل پرستانہ عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ اور جواز بن گیا ہے۔ تیسری دنیا کے کسی ایشیائی یا افریقی دانشور کی طرف سے یہ دعویٰ بادی النظر میں ترقی یافتہ دنیا کے خلاف اس کے تعصب اور غصے کا شاخسانہ نظر آتاہے جو عام طور پر اپنی پسماندگی، غربت اور جہالت کو اپنی نااہلی کی وجہ سمجھنے کی بجائے ترقی یافتہ اور خوشحال قوموں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ یہ بات اس پسِ منظر میں اور بھی زیادہ قرینِ قیاس نظر آتی ہے جب دنیا کے دانشواروں کی بظاہر اکثریت مالتھسی نظریہ آبادی کے زیرِ اثر بڑھتی ہوئی آبادی کو اس دنیا کی بقا اور خوشحالی کے لیے سب سے بڑا خطرہ گردانتی ے بلکہ آبادی اور وسائل کے تناسب کا یہ نظریہ ان کے ایمان کا حصہ بن چکا ہے۔



مالتھس نے اس وقت کے انگلستان کے گرتے ہوئے معیارِ زندگی کا سبب تین عوامل کو ٹھہرایا تھا:
الف) کثرتِ آبادی
ب) بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کوپورا کرنے کے لیے وسائل کی کمیابی، اور
ج) نچلے طبقوں کی غیر ذمہ داری۔
درج بالا عوامل کا حل اس نے یہ تجویز کیا تھا کہ نچلے طبقوں کواپنے خاندان کا سائز محدود رکھنا چاہیے اور غریب لوگوں کو اتنے بچے پیدا نہیں کرنے چاہییں جن کی وہ پرورش نہیں کرسکتے۔ کیونکہ پودوں اور جانوروں کی طرح انسانوں کی آبادی جس رفتار (Geometrical Ratio)سے بڑھتی ہے، پیداوار کی شرح، جس میں اضافہ Arithmetical Ratio سے ہوتا ہے، بہت دیر تک اس کا ساتھ نہیں دے سکتی ۔ اس کے خیال میں زلزلے، قحط، بیماری اور دیگر آفات جن میں بیک جنبش ہزاروں اور لاکھوں انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں، آبادی اور وسائل میں توازن برقرار رکھنے کا ایک قدرتی ذریعہ ہیں۔ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ چارلس ڈارون نے اپنی خود نوشت سوانح حیات (۱۸۷۶ء) میں مالتھسی نظریہ آبادی سے اپنے ’’نظریۂ ارتقاء‘‘ کی تشکیل میں استفادہ کا بھی اقرار کیا ہے۔ موجودہ دنیا میں دیکھا جائے تو یہ دونوں نظریات مغربی فکروعمل کی بنیاد ہیں۔
لیکن اس سارے معاملے کو ایک اور زاویہ سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جس زاویہ سے زیرِ نظرکتاب کی مؤلفہ الزبتھ لیاگن نے اس کا جائزہ لیا ہے۔ اس سے اس نظریہ کے عملی دنیا میں استعمال کا وہ پہلو سامنے آتا ہے جو قوموں اور انسانوں کی بقا کی جدو جہد بالکل مخالف سمت سے شروع کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ یقیناً اس حوالہ سے یہ کتاب بہت سے لوگوں کے خیالات کو اتھل پتھل کر دینے اور بہت سے مغربی نظریۂ ہائے علم پر ایمان رکھنے والے اذہان کو جھنجھوڑ دینے کا باعث بن سکتی ہے۔

اب تک آبادی منصوبہ بندی پر زیادہ تر بحث کم از کم مذہبی حلقوں میں (خواہ وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں، یہودی یا کوئی اور) مذہبی، اخلاقی اور نظریاتی حوالوں سے ہوتی رہی ہے۔ لیکن لیاگن نے اس کتاب میں قطعاً غیر نظریاتی انداز میں اقوامِ متحدہ اور امریکہ کی ایجنسیوں کی تیار کردہ ہزاروں دستاویزات کی بنیاد پر تحدید آبادی کی مہنگی مہمات اور پروگراموں کو ایک سوچی سمجھی سیاسی اور جنگی حکمت عملی اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزیاں قرار دیا ہے۔ اس کے خیال میں آبادی کی بہبود اور انسانیت کی بھلائی کے نام پر امریکہ اور اقوامِ متحدہ کی طرف سے جو کروڑوں ڈالر اور بیش بہا انسانی و مادی وسائل پسماندہ قوموں اور ترقی پذیر ممالک میں بے دریغ خرچ کیے جا رہے ہیں ان کا مقصد صرف اور صرف اپنے سیاسی تفوق اور معاشی بالا دستی کو قائم رکھنا ہے۔ لیاگن نے ثابت کیا ہے کہ گزشتہ دو یا تین صدیوں میں جس دوران مغربی یورپ اور امریکہ نے پائیدار ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کی ہیں ان کی آبادی میں شرح اضافہ آج کے کچھ ترقی پزیر ممالک کی آبادی میں شرح اضافہ سے بھی زیادہ تھی، اور ان کی اس ترقی میں بڑھتی آبادی اور افرادی قوت نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔مثلاً
’’۱۷۹۰ء اور ۱۸۴۰ء کے درمیان پچاس برسوں میں امریکی آبادی ۴ ملین سے بڑھ کر اندازاً ۸ ملین ہوئی ۔یہ تقریباً پانچ گنا اضافہ ہے۔ تین دہائیاں بعد یعنی۱۸۷۰ء میں یہ آبادی مزید دو گنی سے بھی زیادہ یعنی ۵ء۳۸ ملین تھی۔ اگلے دس برسوں میں (۱۸۷۰ء اور ۱۸۸۰ء) کے درمیان ۳۷ فیصد اور اضافہ ہوا ، اور یوں یہ آبادی ۵۰ ملین سے زیادہ ہو گئی ۔ صدی اختتام کو پہنچی تو امریکی آبادی ۷۶ ملین تھی۔ یہ سو برسوں میں پندرہ گنا اضافہ ہے۔ اس کے بعد ۱۹۰۰ء سے ۱۹۴۰ء کے درمیان چالیس سالوں میں امریکی آبادی میں شرح افزائش آج کے بہت سے ترقی پذیر ممالک سے اونچی تھی اور اس کے نتیجہ میں مزید ۵۶ ملین افراد کا اضافہ ہوا۔ بیسویں صدی کے نصف اول کے دوران امریکہ میں آبادی کی اوسط شرح نمو ۳ فیصد تھی۔ یہی وہ عرصہ ہے جب امریکہ نے اپنی پیداواریت اور دنیا میں اپنے مقام و مرتبہ میں بے حد موثر اضافہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آبادی میں اضافہ کا معتدبہ حصہ، بالخصوص بعد کے سالوں میں ، بیرونی آبادکاروں کی وجہ سے ہوا، اور کسی معاشرے کے لیے مقامی طور پر پیدا ہونے والوں کی نسبت باہر سے آنے والوں کو کھپانا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔‘‘
اس کتاب میں بہت سے مغربی مفکرین، پالیسی سازوں، حکومتی اہلکاروں، خفیہ ایجنسیوں کے ذمہ داران کی تحاریر و تقاریر اور سرکاری اجلاس کے ضمیمہ جات سے سینکڑوں ایسے اقتباسات پیش کیے گئے ہیں جن میں بعض نہایت معروف افراد نے نہایت سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ اپنے نسل پرستانہ خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان خیالات کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام رنگدار اقوام کم تر اہلیت اور اہمیت کی حامل ہیں اس کے باوجود خدشہ یہ ہے کہ وہ محض اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے زور پر دنیا میں تسلط اور غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔رنگدار اقوام کی اس بڑھتی ہوئی آبادی کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ اور یورپ کا اپنی آبادی کو بڑھانا مشکل بلکہ ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ کیونکہ امریکہ اور یورپی اقوام مالتھسی نظریہ کے تحت خود اپنے ہی دام میں پھنس کر اپنی آبادی کی شرح خطرناک حد تک کم کر چکی ہیں اور نوبت اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عام یورپی اور امریکی فرد خاندان اور بچوں کے کسی جھنجھٹ میں پڑنا ہی نہیں چاہتا اور \"Enjoy their self\"کے معروف مغربی اصول کے تحت اپنی زندگی ذمہ داری سے پاک اور عیش و عشرت سے بھرپور گزارنا چاہتا ہے۔ چنانچہ مغربی پالیسی سازوں کو اب یہ حل نظر آتا ہے کہ دوسرے خطے کے لوگوں کی آبادیاں بھی اس حد تک کم کر دی جائیں کہ کبھی ان کے مقابل آنے کا خطرہ ہی پیدا نہ ہو سکے۔ اس کے لیے گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک ہمہ پہلو مہم چلائی جا رہی ہے۔ علمی و نظریاتی سطح پر لٹریچر کی تیاری اور اشاعت، ابلاغی محاذ پر سرگرمی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی میدانوں میں آبادی کے حوالہ سے مطلوب پالیسی اقدامات اور ان اقدا مات کے لیے با اثر حلقوں کی حمایت کا حصول اس ہمہ پہلو مہم کے اہم عنوانات ہیں۔ اور حکمتِ عملی یہ ہے کہ براہِ راست بھی اور بالواسطہ طور پر عالمی اداروں کے ذریعہ بھی غربت کے خاتمہ، اقتصادی ترقی اور ماں اور بچے کی صحت جیسے پروگرامات کے پردے میں تحدیدِ آبادی کی مہم کو کامیاب بنایا جائے۔ اس ضمن میں اگر ترغیب و تحریص سے کام نہ نکل سکے تو جنگ، جبر، زور زبردستی حتیٰ کہ ایٹمی اور کیمیائی جنگ کے بارے میں بھی سوچنے اور عمل کرنے کے لیے تیار رہا جائے۔ یہ بات بہت خوفناک اور بظاہر نقابلِ یقین ہے لیکن الزبتھ لیاگن نے اس مہم کے ان تما پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنے دلائل کے لیے امریکہ، ورلڈ بینک ار دیگر عالمی اداروں کی ستاویزات کو بنیاد بنایا ہے جو ناقابلِ تردید ہیں۔