پیر، 14 اگست، 2017

جشنِ آزادی


جشنِ آزادی
پٹیالہ کے تاریخی مقام بٹھنڈہ کے محلہ کھٹیکاں میں یکم دسمبر 1940ء کو پیداہونے والے متین الرحمن کی عمر قیام پاکستان کے وقت ساتھ سال تھی ۔ان کے والد میونسپلٹی میں سینٹری انسپکٹر تھے ۔ محلہ کھٹیکاںمیں چندگھر سکھوں کے، دوچار ہندوؤں کے اور باقی مسلمانوں کے تھے ، اسی وجہ سے اس محلہ کو مسلمانوں کا محلہ سمجھا جاتاتھا۔
اگست 1947ء کا مہینہ گرم تو تھا لیکن گرمی کی شدت میں کمی آگئی تھی ۔ بچوں کو عید کابے صبری سے انتظار تھا لیکن اس بار عید کا موسم ذراعجیب ساتھا جیسے جیسے عید کادن قریب آرہاتھا گلی میں نعروں کا مقابلہ بڑھ رہاتھا ۔جے ہند ،پاکستان زندہ باد،ست سری اکال اور اللہ اکبر جیسے نعرے متین الرحمٰن نے ان ہی دنوں سنے اور سیکھے ۔فسادات کے بعد قرب وجوار کے مسلمان بھی ان ہی کے محلے میں آگئے ۔ان کے محلے کامحاصرہ کیا گیا جس کی وجہ سے انہیں محاصرہ توڑ کر قافلے کی صورت میں نکلنا پڑا ۔47ء کی عید الفطر کے ڈیڑھ ہفتے بعد ایک رات دوسرے پہر فساد زدہ شہرکی غیرمحفوظ گلیوں سے ان کا قافلہ اسٹیشن تک پہنچا۔قافلے کے شہری حدود سے نکلنے اور ویرانے میں پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد ہی کسی حادثے یا واقعے کے سبب بھگڈر مچی اور قافلہ دوحصوں میں بٹ گیا ۔ایک میں والدین ،تیسرے چھوٹے بھائی اور بہن اور دوسرے حصے میں متین الرحمن اوران کا بھائی معین تھے جس نے قریبی گاؤں کی جانب سفر شروع کردیا۔
اب دوسرے قافلے کی کوئی ترتیب اورحفاظتی اقدامات نہ تھے ۔مردوں کی تعدادکم ہونے کے ساتھ ساتھ نہتی بھی تھی ۔رات کی تاریکی بڑھ رہی تھی ۔غیر ہموار سا میدانی راستہ ،جگہ جگہ جھاڑیاں کٹی ہوئی تھیں اور کٹے ہوئے سرکنڈوں کے گٹھے تھے ۔سرکنڈوں کے درمیان سے گذرنا دشوار تھا کیونکہ ہاتھوں اور چہروں پرخراشیں آرہی تھیں ۔اچانک ایک موٹر کی آواز سنی جس سے قافلے میں پھر بھگڈر مچ گئی لوگ افراتفری میں جھاڑیوں کے اندرکود کر چھپنے لگے ۔سلطان چاچا (محلے دار) نے لڑکوں(متین ،معین اورچچاکابیٹا امین اللہ) کو زمین پرلٹا کر سرکنڈوں کے گٹھے بکھیردئیے ۔جب موٹر کی آواز غائب ہوئی ، لڑکوںکو نکالاگیا تو سرکنڈوں کی چھال کی پھانسوں سے جسم کے کھلے حصوں پر خراشیں آچکی تھیں اور کہیں کہیں سے خون رس رہا تھا۔سحر کے قریب کا واقعہ بیان کرتے ہوئے متین الرحمن لکھتے ہیں کہ اب ہمارا سفر نہر کے کنارے کسی سڑک پرہورہاتھا کہ اچانک پیچھے سے ایک دلدوز چیخ ابھری ۔پیچھے مڑ کردیکھا تو چچی (محلے دار کی بیوی)چار،پانچ سکھوں کے نرغے میں تھی ۔چچی نے نہر میں چھلانگ لگادی تھی اورایک سکھ بالوں سے پکڑ کر باہر کھینچ رہاتھا۔چچاتیزی سے واپس بھاگے اور ایک سکھ کا گنڈاسہ چھین کر بالوں سے کھینچنے والے سکھ پر حملہ کردیا۔باقی سکھوں نے چچاپر حملہ کردیا ۔قافلے کے کچھ مرد چچاکی مدد کے لئے آگے بڑھے اور دوبدولڑائی ہوئی ،قافلے میں بھگڈر کی کیفیت پیداہوچکی تھی۔
صبح کا اجالا پھیلنے پرقافلے کاسفر ازسرنو شروع ہوا لیکن اس میں مجھے نہ چچا دکھائی دئیے اور نہ چچی ۔سورج چڑھ آیا توغالباََوہ گاؤں دکھائی دیا جو منزل تھی ۔گاؤں میں داخل ہونے والی گلی کے قریب پہنچے تو ”جائے ماندن نہ پائے رفتن ”والی کیفیت سے دوچارہوئے ۔گلی سے ننگی پنڈلیوں تک پیلے رنگ کے چغوں میں ملبوس اکالی سکھوں کا جتھا برآمد ہوا جن کے ہاتھوں میں خون آلود تلواریں اور بگلوسوںمیں ننگی کرپانیں لٹک رہی تھیں ۔کپڑوں اورہاتھوں پر خون کے دھبے لئے وہ ست سری اکال اور دوسرے نعرے لگارہے تھے ۔ڈرے سہمے بچے کھچے قافلے کو گھیرے میں لے کر گاؤں سے کچھ دورہٹا یاگیا۔اکالیوں میں ایک سکھ ڈھول  پیٹ رہاتھا ،کبھی کبھی سنکھ بجایاجاتا ۔ قافلہ پریشان سامضطرب سوچ رہاتھا کہ سکھ اب انتظار کس کا کررہے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد گاؤں سے دھواں اٹھنا شروع ہوا اورپھر اس سے شعلے لپکنے لگے ۔فضا میں ناگوار سے بوپھیلنا شروع ہوئی جو لاشوں کے جلنے کی بو تھی۔
پاکستان کی آزادی کی قیمت اداکرنے والے ان گمنام جانثاروں کے خون اورگوشت کے بھننے کی بو جو محض مسلمان ہونے اور پاکستان کے تصورسے ہمدردی کے جرم میں جل رہے تھے ۔فضادہشت ناک ترین اور مجنونانہ انداز میں پیٹے جانے والے ڈھول کی لرزہ خیز آواز،دھوئیں ،آگ ،جلتی لاشوں کی بو،برستی راکھ ،بھوک سے بلکتے بچوں کی آوازیں اوراکالیوں کے نعروں سے معمورتھی ۔سنکھ کی کریہہ آواز میں اضافہ ہوا اور ایک سکھ نے نوعمرماں کی گود میں شیرخوار بچے کے پیٹ میں تلوار کی نوک بھونکی اور بچے کو نوک شمشیر پر فضامیں بلند کردیا ۔ننھی سی جان سے خون کا فوارہ ابلا ۔ممتاتلوار کی نوک پرلٹکے بچے کو چھیننے کے لئے جھپٹی تو دوسری تلوار نے اس کا سرتن سے جداکردیا ۔اس کے بعد خوفناک رقص شروع ہوا ۔ہرطرف تلواریں اور ان سے کٹتے ہوئے جسم دکھائی دے رہے تھے اور ایک دوسرے پر گر رہے تھے ۔ہم دوونوں بھائی دوسروں کے خون میں نہاچکے تھے لیکن مجھ میں ایک دومنٹ سے زیادہ اس کیفیت کو دیکھنے کی ہمت نہ تھی ۔مجھ پر کوئی گرااور پھر مجھے کوئی ہوش نہ رہا ۔جب ہوش آیا تو ایک لاش کے نیچے میراسر دباہواتھا۔
بڑی مشکل سے اپنا سر اورریت میں دبا ہوا اپناچہرہ نکالا ،گرم ریت سے منہ ،ناک اورآنکھوں میں اذیت ناک جھلن ہورہی تھی ۔طبیعت کچھ سنبھلی تو معین کی تلاش شروع کی جو کہ قریب ہی لاش کے نیچے نیم بے ہوشی میں دبا ہواتھا۔منظر دیکھاتو ہرطرف لاشیں ہی لاشیں تھیں ،کچھ زخمی تھے لیکن چلنے پھرنے سے معذور اور بری طرح زخمی تھے ۔ہمیں دیکھ کر زخمیوں نے پانی مانگا ۔قریبی کھیت کوپانی دینے والانالہ تھا جس میں قمیض ڈبوڈبو ان زخمیوں کے منہ میں نچوڑتے رہے ۔کئی زخمیوں نے پانی پی کر ہمارے سامنے آخری ہچکی لی ۔متین الرحمن لکھتے ہیں کہ ”آخری ہچکی لے کر زندگی کا سفر ختم کردینے کا غم انگیز منظر ذہن کو کیسا ماؤف کردینے والا ہوتا ہے ،اس تاثر کو میں آج تک فراموش نہیں کرسکا ۔”اس کے بعد متین الرحمن اور ان کے بھائی زندہ دفن ہونے سے بچ گئے اور کچھ عرصہ  ایک کھیت میں  چھپ کرگذارا ،سکھوں کے ہاتھوں زخم کھائے ،پھر ایک سکھ کی پناہ میں آئے اور پھراسی سکھ کے غلام بننے سے بچ کر آخر کا ر ایک ٹرین کے ذریعے لاہور پہنچے جہاں انہیں انار کلی میں مشہور جوتوں کی دکان چاؤلہ بوٹ ہاؤس کے مالک نیک دل شخصیت شیخ افتخار الدین نے اپنی تحویل میں لے لیا ۔جس کے کچھ عرصہ بعد یہ اپنے والدین سے مل گئے۔
یہ کہانی صرف ایک متین الرحمن کی نہیں بلکہ 1947ء میں جو پاکستان آئے ان کی ہے۔میرے ایک دوست کی والدہ نے بتایا تھا کہ ان کا خاندان ہجرت کرکے جب پاکستان پہنچاتو15افراد کے خاندان میں سے صرف 2لوگ زندہ تھے قیام پاکستان کے وقت جو ظلم وستم مسلمانوں پر ہوا آج بھی وہ لوگ محسوس کرکے آہیں بھرتے ہیں ۔جن کے سامنے مائوں بہنوں کی عصمتوں کاجنازہ نکلا ،ماؤں کے سامنے بچوں کو انیوں پر پرویا گیا ، بیویوں کے سامنے سہاگ کاٹے گئے اور بیٹوں کے سامنے باپ کا سرتن سے جداکیاگیا۔یہ سب کس لئے تھا اتنی قربانیاں ،آگ وخون کا دریا ،زمین و جائیداد کی قربانی ،اپنی جائے پیدائش کی قربا نی کس لئے تھی ؟کیا یہ صرف ایک ملک کے لئے تھا ؟نہیں یہ قربانیاں اور عصمتوں کی قربانیاں دینِ اسلام کے لئے تھیں ۔ اگست 1947ء سے لے کر اگست2016ء تک کا سفر ماضی بن چکا لیکن پاکستانی قوم کو اپنے ماضی کو یادرکھتے ہوئے اپنی آنے والی نسلوں کامستقبل اسلام کے مطابق محفوظ اورروشن بناناہے ۔مگر آج کی نسل کو پتہ ہی نہیں کہ یہ آزادی جو وہ منا رہے ہیں وہ کیسے حاصل کی گئی، کیونکہ ان کے نزدیک ، موٹر سائیکل کا سائلنسر نکال کر موٹر سائیکل چلانا  اور اپنی ہی بہن بیٹیوں کے دوپٹے کھینچنا اور ان پر آوازے کسنا ہی آزادی ہے، اس میں ان کا سارا قصور بھی نہیں کیونکہ ان کو بتایا ہی نہیں گیا کہ آزادی ہوتی کیا ہے اور پاکستان بنا کیسے؟ حقیقت میں ان کو بتایا ہی یہی گیا ہے تو انہیں جو بتایا گیا ہے وہ تو وہی کریں گے۔
آج غلامی کے طوق سے پیار کرنے والے آزادی مناتے ہیں اور کچھ میرے جیسے سر پھرےفقط اپنے آنسو پی کر رہ جاتے ہیں ، کیونکہ نہ تو ہم آزاد ہیں اپنی زبان بولنے میں، اور نہ ہی آزاد ہیں اپنا لباس پہننے میں، آج بھی انگریزی زبان بولنے والا اپنے آپ کو پاکستانی کہلوانے میں شرم محسوس کرتا ہے اور اس بات پر فخر کرتا ہے کہ اس کو اردو نہیں آتی اور انگریزی آتی ہے۔ وہ شلوار قمیض پہننے میں شرم محسوس کرتا ہےاور ٹائی لگا کر فخر محسوس کرتا ہے، تو اپنی غلامی کی نشانیوں پر اس حد تک فخر کرنے والے کس منہ سے اپنے آپ کو آزاد کہتے ہیں اور آزادی کا جشن مناتے ہیں ۔ اور تو اور جہاں ہر آنے والے بچہ بھی سوا لاکھ روپے سے اوپر کا مقروض ہو وہاں سرکاری طور پر اربوں روپے چراغاں اور آتش بازی جیسی غیر اسلامی رسومات پر خرچ کرنے والے لو گ  اور حکمران اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ وہ آزاد نہیں ہیں، نہ ہی آزاد ہونا چاہتے ہیں۔  یہ آزادی اس دن اچھی لگے گی جب عوام کے نام پر قرضے لینے والے فرنگی درباریوں کی جگہ واقعی کوئی قائدِ اعظم ؒ دوبارہ پیدا ہو، جو ایوان میں بیٹھے لوگوں کو چائے پانی پوچھنے والے سے یہ کہے کہ’’ جس نے چائی کافی پینی ہے وہ گھر سے پی کر آئے یا پھر گھر جا کر پیئے، یہ پیسہ عوام کا ہے‘‘
یہاں کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے ان کی زبان اور ان جیسا رہن سہن رکھنا پڑتا ہے ورنہ ان کے بقول ترقی ممکن ہی نہیں، تو ان کے لیے صرف اتنا عرض کر دو، ذرا تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھو کہ جن قوموں نے ترقی کی ہے، کیا انہوں نے اپنی زبان اور اپنا لباس چھوڑ کر ترقی کی ہے، زیادہ دور نہ جاؤ مضمون لمبا ہو رہا ہے، صرف چائنا کی مثال دیکھ لو۔ جب تک تم اپنی زبان  اور اپنی ثقافت میں ترقی نہیں کرو گے تب تک  تم ترقی نہیں کر سکتے۔

یاد رکھو کہ جو قوم اپنی زبان اور اپنا لباس اپنانے میں شرم محسوس کرتی ہو وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی، اس کی مثال ایسے ہی  ہےکہ ’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘۔
علیحدہ سے دکھائیں

منگل، 23 ستمبر، 2014

دیباچہ

علیحدہ سے دکھائیں

پیش لفظ

پیش لفظ
تھامس مالتھس (۱۷۶۶ء تا ۱۸۳۴ء) نے ۱۷۹۸ء میں Essay on Population اور پھر اس کے نظر ثانی شدہ دوسرے ایڈیشن ۱۹۰۳ء میں Essay on the Principle of Population میں آبادی اور زمینی وسائل کے عدم تناسب کا جو نظریہ پیش کیا تھا وہ علمی اور تحقیقی بحث سے قطع نظر بیسویں صدی کے امریکی اور یورپی پالیسی سازوں کے لیے اپنے استعماری اور نسل پرستانہ عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ اور جواز بن گیا ہے۔ تیسری دنیا کے کسی ایشیائی یا افریقی دانشور کی طرف سے یہ دعویٰ بادی النظر میں ترقی یافتہ دنیا کے خلاف اس کے تعصب اور غصے کا شاخسانہ نظر آتاہے جو عام طور پر اپنی پسماندگی، غربت اور جہالت کو اپنی نااہلی کی وجہ سمجھنے کی بجائے ترقی یافتہ اور خوشحال قوموں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ یہ بات اس پسِ منظر میں اور بھی زیادہ قرینِ قیاس نظر آتی ہے جب دنیا کے دانشواروں کی بظاہر اکثریت مالتھسی نظریہ آبادی کے زیرِ اثر بڑھتی ہوئی آبادی کو اس دنیا کی بقا اور خوشحالی کے لیے سب سے بڑا خطرہ گردانتی ے بلکہ آبادی اور وسائل کے تناسب کا یہ نظریہ ان کے ایمان کا حصہ بن چکا ہے۔
مالتھس نے اس وقت کے انگلستان کے گرتے ہوئے معیارِ زندگی کا سبب تین عوامل کو ٹھہرایا تھا:

الف) کثرتِ آبادی
علیحدہ سے دکھائیں

جمعرات، 26 ستمبر، 2013

خاندانی منصوبہ بندی کی حقیقت

خاندانی منصوبہ بندی کی حقیقت 

تھامس مالتھس (۱۷۶۶ء تا ۱۸۳۴ء) نے ۱۷۹۸ء میں Essay on Population اور پھر اس کے نظر ثانی شدہ دوسرے ایڈیشن ۱۹۰۳ء میں Essay on the Principle of Population میں آبادی اور زمینی وسائل کے عدم تناسب کا جو نظریہ پیش کیا تھا وہ علمی اور تحقیقی بحث سے قطع نظر بیسویں صدی کے امریکی اور یورپی پالیسی سازوں کے لیے اپنے استعماری اور نسل پرستانہ عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ اور جواز بن گیا ہے۔ تیسری دنیا کے کسی ایشیائی یا افریقی دانشور کی طرف سے یہ دعویٰ بادی النظر میں ترقی یافتہ دنیا کے خلاف اس کے تعصب اور غصے کا شاخسانہ نظر آتاہے جو عام طور پر اپنی پسماندگی، غربت اور جہالت کو اپنی نااہلی کی وجہ سمجھنے کی بجائے ترقی یافتہ اور خوشحال قوموں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ یہ بات اس پسِ منظر میں اور بھی زیادہ قرینِ قیاس نظر آتی ہے جب دنیا کے دانشواروں کی بظاہر اکثریت مالتھسی نظریہ آبادی کے زیرِ اثر بڑھتی ہوئی آبادی کو اس دنیا کی بقا اور خوشحالی کے لیے سب سے بڑا خطرہ گردانتی ے بلکہ آبادی اور وسائل کے تناسب کا یہ نظریہ ان کے ایمان کا حصہ بن چکا ہے۔

علیحدہ سے دکھائیں